Tuesday

ماہر سائنٹسٹ


ماہر سائنٹسٹ




شاعری اور نثر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ شاعری جذبات

 وا حساسات کے اظہار کا زریعہ ہے۔جبکہ نثر معلومات اورعقل سے سوچی ہوئی باتوں کو اور مشاہدات و عملی تجربات کو جامع انداز میں بیان کرنے کا نام ہے۔’’روبینہ نازلی‘‘ ماہر سائنٹسٹ ہونے کے ساتھ ایک اچھی رائٹر بھی ہیں،جو کھلی آنکھ سے اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات کومہارت سے قلمبند کر لیتی ہیں’’کہانی‘‘ پڑھتے پڑھتے قاری کو سچ لگنے لگتا ہے،اس کی وجہ روبینہ صاحبہ کی نثر نگاری پر گہری دسترس اور مکمل آگاہی ہے۔وہ جانتی ہیں کہ نثر خصوصاً شارٹ سٹوری میں،بیانیہ،وصفیہ،توضیعیہ کیا معنی رکھتے ہیں۔
بیانیہ۔،تاریخی یا فرضی واقعات کا تسلسل کیسے برقرار رکھا جاتا ہے۔
وصفیہ۔نثر کی اہم خوبی یہ ہے کہ جس موضوع کا زکر کیا جا رہا ہے ااس کی ضروری اور ٹھوس جزئیات سامنے لائی جائیں۔
توضیعیہ،سے مراد کہانی کے کردار کی وہ تصویر پیش کی جائے جو کردار کے ظاہر و باطن کو نمایاں کر دے۔
روبینہ کی کاوش’’کہانی‘‘نثر کی تمام خوبیوں سے مزین ایک شاہکار فن پارا ہے۔
 
صاحبِ قلم تہذیب و ثقافت کے رکھوالے ہوتے ہیں،اور کتاب ہماری تاریخ کا ایک موثر حوالہ ہوتی ہے۔ روبینہ نازلیؔ ایک ایسی ہی با خبر قلم کار ہیں۔وہ نثر لکھ رہی ہوں ،نظم یا کوئی افسانہ ان کا لہجہ ملائم اور سچائی کی چاشنی سے بھر پور ہوتا ہے۔روبینہ دل کی بات تو سیدھی سادی شاعری میں کرتی ہیں،مگر بات پھربھی فلسفے تک پہنچ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری میں نئی جہت،تازہ احساس اور منفرد فکر کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے۔وہ سمجھتی ہے کہ شاعری حُسن و عشق کے تذکرے اور گُل و بلبل کی کہانی کا نام نہیں،شاعری تو جستجو اور آرزو کا نام ہے،آرزو زندگی کی علامت اور زندگی جستجو کا نام ہے۔
’’دریچہء دل‘‘میں آرزو اور جستجو کو بہت بلند مقام حاصل ہے۔

فوزیہ مغل
ڈائریکٹر۔مغل پبلشنگ ہاؤس۔لاہور
چیئر پرسن۔پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن
چیف ایڈیٹر۔ماہنامہ ’’سخن شناس

No comments:

Post a Comment